ا ستانہ پر عقیدت مندوں نے مانگی ملک میں امن و آشتی اور محبت و رواداری کی دعائیں ٓ داناپور: صوبہئ بہار کے مشہور زمانہ بزرگ ح...
ا ستانہ پر عقیدت مندوں نے مانگی ملک میں امن و آشتی اور محبت و رواداری کی دعائیں ٓ
داناپور: صوبہئ بہار کے مشہور زمانہ بزرگ حضرت شاہ محمد اکبر داناپوری کا114واں سالانہ عرس مقدس خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ،شاہ ٹولی،داناپور میں منعقد ہوا، عرس کی تقریبات سنیچر کی صبح فجر کی نماز کے بعد قرآن خوانی اور قل شریف سے ہوا،اس مبارک موقع پر ملک کے مختلف ریاست سے زائرین کی شرکت ہوتی ہے،یہ عرس لوگوں کے دلوں میں محبت و اخوت اور ہمدردری واستقامت کا جذبہ پیدا کرتا ہے،کثرت سے بندگان خدا حاضری دیتے ہیں اور اکتساب فیض کیاکرتے ہیں جن میں آگرہ،گوالیار،الہ آباد،دہلی،کشن گنج،ارریہ،پورنیہ،کٹیہار،مظفرپور،آرہ وغیرہ سے لوگ شریک عرس ہوتے ہیں، بعد نماز عصر خانقاہ کے وسیع ہال میں بزرگ شخصیت حضرت شاہ خالد امام ابوالعلائی کی علمی وعملی نشست قائم ہوئی جس میں آپ نے مریدان و معتقدان کو تلقین طریقت کیا، خانقاہ کے وسیع احاطہ میں فرزندان توحید نے مغرب کی نماز ادا کی اس کے بعد محفل تذکیر کا سلسلہ شروع ہوا، مولانا سیدشاہ محمد ریان ابوالعلائی نے سامعین سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بہار ہمیشہ سے صوفیائے کرام کی قدیم آماجگاہ رہی ہے، یہاں مختلف سلاسل کے مشائخ آرام فرماہیں، حضرت شاہ اکبر داناپوری بہار کے وہ گوہر نایاب ہیں جس پر اہل علم کو ناز ہے مختلف فن کے ماہر اور بیشتر کتب و رسائل کے مصنف،دو ضخیم دیوان کے مالک اور ہزاروں مریدوں کے پیرومرشد اور بندگان خدا کی بے لوث خدمت کرنے والے شاہ اکبر داناپوری نے بہار میں علم و ادب اور رشدو ہدایت کا ایسا چراغ روشن کیا ہے جس کی چمک سے آج بہارکی علمی فضا معطر ہورہی ہے،صوفیائے کرام نے ہمیشہ لوگوں کی خدمت کی ہے اور اپنے ماننے والوں کو بھی اسی طرف توجہ دلائی ہے،وہ بلامذہب ومسلک لوگوں کاخیال رکھتے تھے،خانقاہ سجادیہ کے سجادہ نشین حضرت شاہ سیف اللہ دانشمند ابوالعلائی نے حضرت شاہ اکبر داناپوری کی سیرت وکتب کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ان کے نزدیک خدمت خلق سب سے بڑی عبادت تھی،موجودہ عہد میں اصلاح معاشرہ کے لئے صوفیوں کی روش پر قائم رہنا وقت کی ضرورت بتایا،اس کے علاوہ خانقاہ ابوالعلائیہ الہ آباد کے سجادہ نشین سیدشاہ حیات احمد ابوالعلائی نے حضرت شاہ اکبر داناپوری کے صوفیانہ شاعری پر خوب توجہ دی اور کہاکہ ان کی شاعری اہل دل کے لئے دوا ہے،محفل میں سیدشاہ ذیشان خالد،حافظ اجمل اشرفی،سید شاہ غیاث الدین ابوالعلائی، حافظ گلشید چشتی،ارشد ظفری اور حفاظ الدین ظفری وغیرہ نے نعت و منقبت کے اشعار والہانہ انداز میں پیش کیا،محفل کا اختتام خانقاہ کے سرپرست سیدشاہ خالدامام ابوالعلائی کی پر مغز دعا پر ہوا،اس طرح عشا کی نماز کے بعد خانقاہ سے عقیدت مند آستانہ اکبری کی طرف چادر لے کر روانہ ہوئے جس میں عقیدت مندوں کی بڑی تعداد شامل رہی،آستانہ پرسید شاہ نصر سجاد ظفری ابوالعلائی کی اجتماعی دعا ہوئی جس میں عالم اسلام اور خاص طور سے موجودہ دورمیں تحفظ و بقا کی دعائیں مانگی گئیں،بعدہ خانقاہ میں تہجد کے وقت تک محفل سماع کا اہتمام رہاجس میں لوگوں نے اپنی کیفیت کا خوب اظہار کیا، یہ خانقاہیں صلاح وفلاح اور لوگوں کی خدمت کے لئے معرض وجود میں آئی ہیں،عرس کے دوسرے روز وقت چاشت تک بزرگان دین کے تبرکات مقدسہ کی عام زیارت کرائی گئی جس میں لوگوں نے بڑی عقیدت کے ساتھ زیارت کی اس دوران منقبت خوانی کا سلسلہ بھی جاری رہا آخر میں حضرت شاہ خالد امام ابوا لعلائی کی اجمتماعی دعا ہوئی،بعدہ تاوقت ظہر محفل سماع کا اہتمام رہا،حسب معمول محفل سماع کا آغاز حضرت شاہ اکبر داناپوری کے مشہور کلام حمد ’اے بے نیاز مالک،مالک ہے نام تیرا‘سے ہوا جس سے محفل کی کیفیت میں مزید اضافہ ہوا،عرس میں آئے ہوئے زائرین کے علاوہ علما ومشائخ ونمائندگان نے بھی شرکت فرمائی،عرس اکبری کا اختتام آخری قل حضرت مولانا شاہ محفوظ اللہ ابوالعلائی قدس سرہ سے ہوا جس میں سجادہ نشین حضرت شاہ سیف اللہ دانشمند ابوالعلائی نے اجتماعی دعا کی اس موقع پر مختلف اضلاع کے علاوہ شہر کے افراد نے بھی شرکت کی۔