بابری مسجد کا فیصلہ آنے کے بعدسے فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند، جمعیۃ علماء ہند عرضداشت کی سخت مخالفت کریگی، گلزار اعظمی نئی دہلی 14 جون ...
بابری مسجد کا فیصلہ آنے کے بعدسے فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند، جمعیۃ علماء ہند عرضداشت کی سخت مخالفت کریگی، گلزار اعظمی
نئی دہلی 14 جون 2020
بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ کا فیصلہ آنے کے سات مہینے کے بعد گذشتہ کل ایک ہندو تنظیم نے گیان واپی مسجد، کاشی متھرا عید گاہ و مسجد تنازعہ حل کرانے کے لئے سپریم کورٹ آف انڈیا کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے، ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہیت مہا سنگھ نے عبادت کے مقام کے قانونی یعنی کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی آئینی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔یہ قانون 18 ستمبر 1991کو پاس کیا گیا تھا جس کے مطابق 1947 میں ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیاجاسکتا ہے حالانکہ بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں چل رہا تھا۔پجاریوں کی جانب سے داخل کی گئی پٹیشن کا علم ہوتے ہی صدر جمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند نے اس پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لئے مداخلت کار کی درخواست داخل کردیا۔جس میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کو مدعی بنایا گیا ہے۔اس ضمن میں گلزار اعظمی نے بتایا کہ انہیں جیسے ہی پتہ چلا کہ سادھوؤ ں کی تنظیم کی جانب سے پلیس آف ورشپ قانون کو چیلنج کرتے ہوئے گیان واپی مسجد، کاشی متھراعیدگاہ اور مسجد تنازعہ دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے انہوں نے جمعیۃ علماء کے قانونی صلاح کار ایڈوکیٹ شاہد ندیم کو ہدایت دی کہ ہمیں سادھوؤں کی جانب سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل اس عرضداشت کی مخالفت کرنا چاہئے لہذا وہ سپریم کورٹ میں جلد از جلد مداخلت کار کی پٹیشن داخل کرنے کے لیئے لائحہ رعمل تیار کریں۔گلزار اعظمی نے کہا کہ ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول سے آن لائن کانفرنس کرکے انہیں جمعیۃ علماء کی جانب سے سپریم کورٹ میں جلد از جلد مداخلت کار کی درخواست داخل کرنے کی گذارش کی جس کے بعد گذشتہ شب ہی سپریم کورٹ آف انڈیا میں مداخلت کار کی درخواست داخل کردی گئی جس کا ڈائری نمبر 12395/2020ہے۔ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی جانب سے داخل کردہ پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے تو عدالت ہندو سادھوؤں کی جانب سے داخل پٹیشن کو سماعت کے لئے قبول ہی نہ کرے اور اسے خارج کردے کیونکہ اگر عدالت اسے سماعت کے لئے قبول کرلیتی ہے تو ہندوستا ن کے انصاف وامن پسند عوام بالخصوص مسلمانوں میں خوف پیدا ہوجائے گا کیونکہ بابری مسجد فیصلہ آنے کے بعد سے ہی مسلمان ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو لیکر فکر مند ہیں نیز ملک کی قومی یکجہتی کو اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔عرضداشت میں مزید لکھا گیا ہے کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ مقدمہ میں جمعیۃ علماء ہند اہم فریق تھی جس میں پلیس آف ورشپ قانون کی دفعہ 4کو قبول کیا گیا ہے اور اس قانون کی آئینی حیثیت کو بھی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے لہذا اب اس قانون کو چیلنج کرکے ملک کا امن ایک با ر پھر خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔پٹیشن میں مزید درج کیاگیاہے کہ پلیس آف ورشپ قانونی 1991 نافذکرنے کا دو مقصد تھا، پہلا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا اور دوسرا مقصد یہ تھا 1947 کے وقت عبادت گاہیں جس حال میں تھی اسی حال میں اسے رہنے دینا تھااور ان دونوں مقاصد کو بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ فیصلہ میں عدالت نے مانا ہے۔عرضداشت میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ پلیس آف ورشپ قانون آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے اس بات کا ذکر بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں کیا گیا ہے نیز اس قانون کی حفاظت کرنا سیکولرملک کی ذمہ داری ہے اور سیکولر ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے۔عرضداشت میں مزیدکہاگیا ہے کہ بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے پلیس آف ورشپ قانون کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے جس کے مطابق یہ قانون آئین ہند کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے نیز اس قانون کی دفعہ 4 عبادت گاہوں کی تبدیلی کو روکتا ہے نیز یہ قانون بنا کر حکومت نے آئینی ذمہ داری لی ہے کہ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری لیگی اور یہ قانون بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ سیکولر ازم کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے اس کے باوجود سادھوؤں کی تنظیم نے اس قانون کو چیلنج کیا ہے لہذاعدالت کو ان کی پٹیشن کو سرے سے ہی خارج کردینا چاہئے۔ اگر ہندو سادھوؤں کی جانب سے داخل کردہ عرضداشت کو عدالت نے سماعت کے لے قبول کرلیا تو مقدمہ دائر کرنے کا ایک سیلاب آجائے گاجس کی وجہ ملک میں مزید بد امنی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔گلزاراحمداعظمی نے مزید کہا کہ ملک میں سیکڑوں مساجد ایسی ہیں جس پر ہندوؤں کا دعوی ہے کہ وہ پہلے مندر تھے جسے مغل حکمرانوں نے توڑ کر مساجد اور عید گاہوں میں تبدیل کردیا لہذا پلیس آف ورشپ قانونی کی بالا دستی قائم رکھنے کے لیئے جمعیۃ علماء ہند پوری قوت سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں مقدمہ لڑے گی۔