اے سی پی سچن وازے اوردیگر پولس افسران کے خلاف داخل چارج شیٹ کا انگریزی ترجمہ کرانے کا عدالت نے حکم دیا، گلزار اعظمی ممبئی 9 مارچ خواجہ یون...
اے سی پی سچن وازے اوردیگر پولس افسران کے خلاف داخل چارج شیٹ کا انگریزی ترجمہ کرانے کا عدالت نے حکم دیا، گلزار اعظمی
ممبئی 9 مارچ
خواجہ یونس قتل معاملے میں ملوث چار پولس والوں کی ملازمت پر بحالی کے ممبئی پولس کمشنر کے خصوصی حکم (آرڈر) کو چیلنج کرنے والی خواجہ یونس کی والد ہ کی جانب سے داخل سول رٹ پٹیشن پرآج ممبئی ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے روبرو سماعت عمل میں آئی جس کے دوران عدالت نے عرض گذار کو حکم دیا کہ وہ مراٹھی زبان میں موجود تمام دستاویزات کے ترجمے انگریزی زبان میں کرکے عدالت میں داخل کرے۔
جسٹس کے کے تاتیڑ اور جسٹس ریاض چھاگلا نے جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) کی جانب سے مقرر کردہ سینئر ایڈوکیٹ مہر دیسائی کو حکم دیا کہ عرضداشت کے ساتھ منسلک مراٹھی زبان کے دستاویزات کا انگریزی زبان میں ترجمعہ کرائے، حالانکہ سینئرایڈوکیٹ مہر
دیسائی نے عدالت سے کہا کہ عدالت انہیں ان دساویزات کے تراجم کرانے سے رعایت دے کیونکہ یہ ایک دو کاغذ نہیں ہے بلکہ تقریبا ً سو صفحات ایسے ہیں جن کے تراجم کرانے پڑیں گے جو آسان نہیں ہے۔ مہر دیسائی نے عدالت کو کہا کہ وہ مراٹھی زبان سے واقفیت رکھتے ہیں اور وہ عدالت کی معاونت کرنے کے لیئے تیار ہیں لیکن عدالت نے ان کی اس گذارش کو مستر د کرتے ہوئے انہیں حکم دیا کہ 31 / مارچ تک وہ مراٹھی زبان میں موجود تمام دستاویزات کا ترجمہ کرائیں۔
دیسائی نے عدالت سے کہا کہ عدالت انہیں ان دساویزات کے تراجم کرانے سے رعایت دے کیونکہ یہ ایک دو کاغذ نہیں ہے بلکہ تقریبا ً سو صفحات ایسے ہیں جن کے تراجم کرانے پڑیں گے جو آسان نہیں ہے۔ مہر دیسائی نے عدالت کو کہا کہ وہ مراٹھی زبان سے واقفیت رکھتے ہیں اور وہ عدالت کی معاونت کرنے کے لیئے تیار ہیں لیکن عدالت نے ان کی اس گذارش کو مستر د کرتے ہوئے انہیں حکم دیا کہ 31 / مارچ تک وہ مراٹھی زبان میں موجود تمام دستاویزات کا ترجمہ کرائیں۔
واضح رہے کہ پچھلی سماعت پر ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے سوال پوچھا تھا کہ چار وں پولس والوں کی ملازمت پر بحالی سے خواجہ یونس کی والدہ کو کیا فرق پڑتا ہے جس کے جواب میں سینئر وکیل مہر دیسائی نے جسٹس اے اے سید اور جسٹس مادھو جامدار کو بتایا تھا کہ ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود ممبئی پولس کمشنر نے چاروں پولس والوں کو بحال کرکے ہائی کورٹ کے حکم کی توہین کی ہے اور قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں۔
اس ضمن میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ جمعیۃ علماء نے خواجہ یونس کی والد کیجانب سے ممبئی پولس کمشنر کے فیصلہ کو ممبئی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے ا س سے قبل جمعیۃ علماء نے ممبئی پولس کمشنر کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی عرضداشت بھی داخل کی تھی جو زیر سماعت ہے۔ ابتک اس معاملے میں ممبئی ہائی کورٹ میں سات سماعتیں ہوچکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کے حکم پر مراٹھی زبان میں موجود دستاویزات جس میں خواجہ یونس کے قتل کے مقدمہ میں اے سی پی سچن وازے، کانسٹبل راجندر تیواری، راجا رام نکم اور سنیل دیسائی کے خلاف داخل چارج شیٹ کے کاغذات ہیں کو انگریزی میں ترجمہ کرکے داخل کیا جائے گا۔
گلزار اعظمی نے بتایا کہ خوجہ یونس کی والدہ آسیہ بیگم کی جانب سے داخل کردہ سول رٹ پٹیشن میں پولس کمشنر آف ممبئی پرم ویر سنگھ کے علاوہ چاروں پولس والوں کو بھی فریق بنایاگیا ہے، پٹیشن میں درج ہیکہ ممبئی پولس کمشنر کا چاروں پولس والوں کی معطلی کو ختم کرکے انہیں دوبارہ ملازمت پر بحال کرنے کا فیصلہ غیر قانونی ہے لہذا ہائی کورٹ کو اسے کالعدم قراردینا چاہئے کیونکہ پولس کمشنر کویہ اختیار ہی نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ممبئی گھاٹکوپر بم دھماکہ معاملے میں ماخوذ کیئے گئے پربھنی کے ملزم خواجہ یونس (سافٹ وئیر انجینئر)کی پولس حراست میں ہوئی موت کے ذمہ دار پولس والوں کو سی آئی ڈی کی تحقیقات کے بعد ملازمت سے معطل کردیا گیا تھا لیکن 6 / جون2020 کو ان پولس والوں کو ملازمت پر بحال کردیاگیاجس کے خلاف خواجہ یونس کی والدہ کی جانب سے جمعیۃ علماء کے توسط سے ممبئی پولس کمشنر پرم ویر سنگھ اور ہوم ڈپارٹمنٹ کو توہین عدالت کانوٹس بھیجا گیا تھا نوٹس کا جواب پولس کمشنر کی جانب سے موصول نہ ہونے پر ممبئی ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی پٹیشن اور سول رٹ پٹیشن داخل کی گئی تھی جو زیر سماعت ہے۔
گلزار اعظمی نے مزید بتایا کہ 2004 میں ممبئی ہائی کورٹ نے حکم دیا تھاکہ خواجہ یونس قتل معاملے میں ملوث پولس والوں کو ڈسپلینری انکوائری کا سامنا کرنا ہوگا لیکن اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اس کے باوجود پولس والوں کو ملازمت پر بحال کردیا گیا جو توہین عدالت ہے نیز ممبئی پولس کمشنر کا فیصلہ غیر آئینی ہے لہذا حصول انصاف کے لیئے جمعیۃ علماء نے توہین عدالت کی پٹیشن کے ساتھ ساتھ ممبئی ہائی کورٹ میں سول رٹ پٹیشن بھی داخل کی تھی جس پر آج سماعت عمل میں آئی۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ اے سی پی سچن وازے، کانسٹبل راجندر تیواری، راجا رام نکم اور سنیل دیسائی کو ملازمت پر لے لیا گیا ہے جبکہ سی آئی ڈی نے ان کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی او ر فاسٹ ٹریک عدالت میں چلنے والے اس مقدمہ میں ابتک صرف ایک گواہ کی گواہی عمل میں آئی ہے ایسے میں ان پولس والوں کی ملازمت پر بحالی سے خواجہ یونس کی فیملی سمیت انصاف پسند عوام کو صدمہ پہنچا ہے۔
عیاں رہے کہ23 دسمبر 2002 کو خواجہ یونس کو 2، دسمبر 2002 کو گھاٹکوپر میں ہونے والے بم دھماکہ کے الزام میں گرفتارکیا تھا جس کے بعد سچن وازے نے دعوی کیا تھا کہ خواجہ یونس پولس تحویل سے اس وقت فرار ہوگیا جب اسے تفتیش کے لیئے اورنگ آبا دلے جایا جارہا تھا حالانکہ سی آئی ڈٖی نے سچن وازے کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے معاملے کی تفتیش کے بعد ان پولس والوں کے خلاف خواجہ یونس کو قتل کرنے کا مقدمہ قائم کیا تھا جو زیر سماعت ہے۔ جمعیۃعلماء مہاراشٹر